تحریر: مولانا جاوید حیدر زیدی
خلافتِ امیرالمومنین
خیر البشر، امیر المومنین، امام المتقین ، سیّد المسلمین، یعسوب الدین، عمود الدین حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السّلام کی حیات طیبہ کے تمام پہلو ہمارے لئے نمونہ عمل ہے، لیکن اس مختصر سے مضمون میں مکن نہیں کہ تمام پہلوؤں پر روشنی ڈالی جائے، حضرت علی علیہ السّلام کےایک پہلو کو اگر آج کے حکمران پڑھیں اور اس پر عمل کریں تو ظلم و بربریت کا خاتمہ اور امن و سکون کا ماحول ہو جائے وہ پہلو عدل و انصاف کا ہے۔
عدل و انصاف کا نفاذ جو مولا علی علیہ السّلام کو دنیا کے تمام سابقہ اور آئندہ حکمرانوں سے جدا اور منفرد کرتا ہے۔ آپ نے عدل و انصاف کا معاشروں، ریاستوں، تہذیبوں، ملکوں، حکومتوں اور انسانوں کے لیے انتہائی مہم اور لازم ہونا اس تکرار سے ثابت کیا کہ عدل آپ کے وجود اور ذات کا حصہ بن گیا اور لوگ آپ کو عدل سے پہچاننے لگے۔ ذاتی امور اور حکومتی معاملات کے لیے الگ الگ چراغ جلانے اور اپنے حقیقی بھائی کو بیت المال سے صرف جائز حق سے زیادہ نہ دینے سے لے کر اپنے ملک اور معاشرے میں عدل اجتماعی نافذ کرنے تک آپ کی پوری حیات عدل و انصاف سے مزین رہی اور آپ نے گھر سے لے کر معاشرے اور حکمرانی تک عدل و انصاف کے معاملات میں کبھی مصلحت سے کام نہیں لیا۔ اسی عدل کے سبب آپ کی شہادت واقع ہوئی ہے۔
رسول خداؐ سے براہ راست رشتے، تعلق، تربیت، سرپرستی اور بچپن سے لیکر زندگی کے تمام مراحل تک جلوت و خلوت میں قرابت کا سبب ہے کہ امیرالمومنینؑ کی زندگی تعلیمات قرآنی اور سیرت رسول اکرم کا عملی نمونہ اور روشن تفسیر کے طور پر موجود ہے۔ اسی تربیت کی وجہ ہے کہ امیرالمومنینؑ کا دور حکومت بہت سارے بحرانوں کے باوجود کامیاب دور حکومت تھا۔ اگرچہ تاریخ کو مسخ کرتے ہوئے اور حقائق پر پردہ ڈالتے ہوئے امیرالمومنینؑ کے تاریخی اور انقلابی اقدامات کو چھپانے کی بہت کوششیں کی گئیں لیکن تاریخ کے جھروکوں سے وہ تمام کامیابیاں اور اصلاحات آج بھی نظر آرہی ہیں۔
امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام نے سیاسی، معاشی، سماجی، تہذیبی اور تعلیمی وغیرہ تمام میدانوں میں جو اقدامات اور اصلاحات کیں وہ تمام ادوار اور تمام محکموں کے لیے نمونہ عمل ہیں۔ آپ نے اپنے دور حکومت میں مثبت اور تعمیری سیاست کی بنیاد ڈالی۔ حزب مخالف کی سازشوں اور منفی حربوں کا حکمت عملی، دانش مندی اور مسلمانوں کے اجتماعی مفاد کو دیکھتے ہوئے مقابلہ کیا، حکمرانی کو خدمت کا ذریعہ اور خدا کی طرف سے عطا کردہ امانت قرار دیا اور اس کی ایسے ہی حفاظت کی جس طرح خدا کی امانتوں کی حفاظت کی جاتی ہے۔ اگر دنیا کے تمام حکمران جدید عصر کے تقاضوں کو مد نظر رکھ کر صرف عدل علیؑ کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے نظام آگے بڑھائیں بالخصوص مسلمان ممالک اگر عدل علیؑ کو اپنی ترجیحات میں شامل کریں تو پوری دنیا سے ظلم و جبر اور زیادتی وتجاوز کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔
امیرالمومنینؑ نے حکومت کا حصول کبھی ہدف نہیں سمجھا بلکہ اپنے اصلی اور اعلی ہدف تک پہنچنے کا ذریعہ قرار دیا۔ اس حوالے سے آپ کا ایک معروف قول ہے کہ ”میرے نزدیک حکومت ایک پھٹے پرانے جوتے سے بھی کم تر حیثیت رکھتی ہے مگر اس صورت میں جب اس کے ذریعے کسی حق کو قائم کرسکوں اور کسی باطل کا خاتمہ کرسکوں“ ذاتی نوعیت کے مسائل پر گفتگو کے لیے بیت المال کے چراغ کو ہٹاکر حضرت علیؑ کا اپنے گھر سے چراغ منگوانا حکمرانوں کے لئے ایک روشن مثال ہے کہ ذاتی ضروریات پر قومی امانت کو صرف کرنا جائز نہیں ہے۔ یہ طرز عمل حکمرانوں کے لیے روشن مثالیں ہیں کہ وہ گڈ گورننس قائم کرتے وقت کس طرح اپنی ذات پر قوم کو ترجیح دیتے ہیں اور انصاف کا قیام کسی مصلحت کے بغیر کرتے ہیں۔
شھادتِ امیرالمومنین
افسوس یہ ھے کہ یہ امن، مساوات اور اسلامی تمدّن کا علمبردار دنیا طلب لوگوں کی عداوت نے 19 ماہ رمضان المبارک کو وقت سحر سجدۂ معبود میں جس وقت امیر المومنین کی پیشانی خون میں غلطاں ہوئی خدا کے معتمد اور رسول اسلام (ص) کے امین، فرشتوں کے امیر ، جنگ احد میں لافتی الّا علی لاسیف الّا ذوالفقار کا نعرہ بلند کرنے والے جبرئیل نے تڑپ کر آواز بلند کی۔
"ان تَہَدّمَت و اَللہ اَرکان الہُدیٰ"
خدا کی قسم ارکان ہدایت منہدم ہو گئے۔
مسجد کوفہ میں جب سارے مسلمان اپنے امام و پیشوا کے غم میں نوحہ و ماتم کرنے میں مصروف تھے، خداوند کا مخلص بندہ اپنے معبود سے ملاقات کا اشتیاق دل میں لیے آواز دے رہا تھا:
"فُزتُ وَ رَبّ الکَعبہ"
رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہو گیا۔
حضرت علی علیہ السّلام آج بھی کامیاب ہیں کیونکہ ان کی سیرت، ان کا کردار، ان کے اقوال و ارشادات ان کی حیات اور شہادت کا ایک ایک پہلو پوری بشریت کی کامیابی و کامرانی کی ضمانت سمجھا جاتا ہے، اسی لیے حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السّلام سے محبت اور معرفت رکھنے والے کل بھی اور آج بھی اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السّلام کی شہادت تاریخ بشریت کے لیے ایک عظیم نقصان اور ایسی مصیبت ہے کہ اس پر جتنا بھی گرایا و ماتم کیا جائے کم ہے۔